مظبوط عورت
ایک سرخ جوڑا، لال چوڑیاں اور ہاتھوں پے مہندی
اس معصوم سی خواہش نے میری
صفحہ زیست کا رخ ہی بدل ڈالا
میں نے سمجھا تھا کہ تمہارا پیار
میری زندگی کی تکمیل کریگا
مگر تم نے تو مجھے ریزا ریزا کردیا
وہ لفظ جو بہت ہی معتبر ہے
جسے نکاح کہتے ہیں میں اس رشتے کے فریب میں
خود کو سالہاسال دھوکا دیتی رہی
محبت کی شکستگی کے بعد میں نے
نکاح کے لفظ میں پناہ ڈھونڈی
مگر پناہ تو وہاں بھی نہ تھی ۔
جب تم نے مجھے چھوڑا تو
میں بہت ٹوٹی ، بہت بکھری
پھر میں نے اپنے اندر ایک قبر بنائی
جس میں سرخ جوڑے کی آس میں ملے ہوئے
سفید لباس میں ملبوس ارمانوں کو دفن کرڈالا
میری نامکمل خواہشیں ، میری حسرتیں
میری محرومیاں بہت تڑپیں ،
بہت چینخیں چلائیں
مگر میں نے انکی ایک نہ سنی
اور مڑکر اس قبر کو نہیں دیکھا
جب محبت اور خواہشوں کا سارا بوجھ
مٹی تلے دبہ تو مجھے احساس ہوا
کہ میری ہستی کو تکمیل کے لیئے تیری ضرورت نہیں
میں ایک عورت ہوں پہلے سے ہی مکمل
تیرے جیسے کتنے جسم میں نے تخلیق کیے ہیں
جب میں ٹوٹ کر جڑی تو پتھر بن گئی
اب تو مجھے توڑے یا چھوڑے
مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا
اب میں ٹوٹنے ، جڑنے ، حاصل ، لاحاصل کی حدوں سے
بہت آگے نکل آئی ہوں
کیونکہ !
اب میں ایک عورت نہیں بلکہ
ٹوٹی ہوئی مضبوط عورت ہوں ۔ ۔ ۔